حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کراچی کے شعبۂ ثقافت کے زیرِ اہتمام، امام خمینی ہال میں ایک بابرکت پروگرام بعنوان "ہفتۂ دفاع اور شہیدِ راہِ قدس و فلسطین سید حسن نصر اللہؒ" منعقد ہوا، جس میں اساتذہ اور طلباء نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے کیا گیا، اس کے بعد شعراء و منقبت خواں حضرات نے شہداء سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کیا۔
جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کے سابق مدیر حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر عقیل موسیٰ مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے تشریف لائے۔ آپ نے اپنی گفتگو سورۂ یونس کی آیت 62 کی تلاوت سے آغاز کی:"سنو! بے شک جو اللہ کے دوست ہیں، ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔"

ڈاکٹر عقیل موسیٰ نے اپنی گفتگو کے پہلے حصے میں شہید کی زندگی سے حاصل ہونے والے اسباق پر روشنی ڈالی اور دوسرے حصے میں طلاب کی ذمہ داریوں پر تفصیل سے گفتگو کی۔
انہوں نے کامیاب لوگوں کی دو خصوصیات بیان کیں:
1. دل کا سکون و خوشحالی
2. ماضی کے ملال اور مستقبل کے خوف سے آزادی
انہوں نے شہید مطہریؒ کی ایک بات نقل کرتے ہوئے کہا کہ موت کی سب سے اعلیٰ قسم وہ ہے جس میں انسان جانتے ہوئے بھی راہِ حق کو اختیار کرتا ہے اور اپنی جان قربان کرتا ہے، جیسا کہ امام حسینؑ کے عظیم الشان قافلے نے کیا۔
ڈاکٹر عقیل موسیٰ نے کہا کہ شہید سید حسن نصر اللہؒ ایک سادہ اور متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد سبزی فروش تھے اور سخت مشقت کرتے تھے۔ مگر سید حسن نصر اللہؒ بچپن ہی سے قرآن کی تلاوت اور مجالسِ عزاء میں خطاب کے شوقین تھے۔ آپ کی زندگی آغاز ہی سے روحانیت اور معنویت سے منور تھی۔
انہوں نے یہ سوال کرتے ہوئے کہ بعض افراد دلوں میں خاص مقام کیوں حاصل کرتے ہیں؟ جیسے شہید سلیمانیؒ یا امام حسینؑ؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو خالصتاً خدا کے لیے وقف کرتے ہیں، اللہ ان کا ذکر ہمیشہ کے لیے زندہ رکھتا ہے۔

ڈاکٹر عقیل موسیٰ نے طلباء کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ طالب علمی دو دھاری تلوار کی مانند ہے؛ ایک طرف بے پناہ فضیلت اور دوسری جانب سخت ذمہ داری۔ علماء کی فضیلت اس لیے ہے کہ ان کی تبلیغ کے نتیجے میں ہی شہداء اپنی جان قربان کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ طلبہ کو مطالعہ کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا چاہیے، کیونکہ یہی ان کی غذا ہے۔
انہوں نے امام زمانہ کے منتظرین کی اقسام بیان کرتے ہوئے کہا کہ منتظرین کی پانچ قسمیں ہیں:
1. بے علم منتظرین
2. باعلم مگر بے عمل
3. صرف فردی زندگی میں منتظر
4. اجتماعی طور پر فعال منتظرین (یہی درست راستہ ہے)
5. عاشق منتظرین، جیسے سلمان فارسی اور ابوذر غفاریؒ

انہوں نے مزید کہا کہ حقیقی انتظار تب ہے جب ہم زمینہ سازی کریں، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کریں اور دین کے فروغ کے لیے عملی قدم اٹھائیں۔
ڈاکٹر عقیل موسیٰ نے ولایت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اللہ ہی اصل ولی ہے اور اولیاء اللہ اسی سے وابستہ ہیں۔ اگر ہم اپنے نفس پر قابو پالیں تو حقیقی اتحاد پیدا ہوگا۔
انہوں نے امام زمانہؑ کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے شیعہ وفاداری اور ہمدلی سے ہمارے عہد پر قائم رہتے تو ظہور میں ذرا بھی تاخیر نہ ہوتی۔

علامہ عقیل موسیٰ نے طلاب کی اہم ذمہ داریوں کی جانب اشارہ کیا کہ 1۔علمی لحاظ سے قوی ہونا اور معتبر حوالہ جات کے ساتھ گفتگو کرنا۔ 2۔مطالعہ اور کتب سے مانوس رہنا
3۔تکبر اور استکباریت سے پرہیز
4۔گناہوں سے اجتناب اور عمل میں صداقت
5.قرآن و اہل بیتؑ سے توسل
6.توکل اور عبادات خصوصاً نماز شب کو زندگی کا حصہ بنانا
7.تلخیوں اور مشکلات کو صبر سے برداشت کرنا









آپ کا تبصرہ